شادی کی پہلی رات میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ جب وہ سہاگ رات کو کمرے میں پہنچ جائیں گے تو پھر چاہیے کوئی بھی دروازے پر آجائے ہم لوگ دروازہ نہیں کھولیں گے.
ابھی دلہے دلہن کو دروازہ بند کیئے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ دلہے کے والدین کمرے کے باہر پہنچ گئے تکہ اپنے بیٹے اور بہو کو نیک تمناؤں اور راحت بھری زندگی کی دعائیں دے سکیں . دروازے پر دستک ہوئی تو بتایا گیا کہ دلہے کے والدین باہر موجود ہیں اور دلہے دلہن سے ملنے کی خواہش مند ہیں. دولہا اور دولہن نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا , باجود اس کے کہ دولہا دروازہ کھولنا چاہتا تھا لیکن اس نے فیصلہ کو مدنظر رکھا اور اپنے والدین کیلئے دروازہ نہیں کھولا. دلہے کے والدین کچھ دیر وہاں کھڑے رہے اور پر مایوس واپس چلے گئے.
ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ دلہن کی والدین بھی دلہے کے گھر پہنچ گئے تاکہ اپنی بیٹی اور دماد کو نیک خواہشات پہنچا سکیں اور انہیں سکھی زندگی کی دعائیں دے سکیں. ایک بار پھر کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی تو بتایا گیا کہ دلہن کے والدین باہر موجود ہیں اور دلہے دلہن سے ملنے کی خواہش مند ہیں. دلہے دلہن نے ایک بار پھر ایک دوسرے کو دیکھا اور اپنا فیصلہ ذہن میں تازہ کیا , باوجود اس کے کہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ کسی کیلئے بھی دروازہ نہیں کھولا جائے گا لیکن دلہن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوے اور اس نے کہا کہ میں اپنے والدین کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی اور اٹھ کر دروازہ کھول دیا .
دلہے نے یہ سب کچھ دیکھا مگر دلہن کو کچھ نہیں کہا اور خاموش رہا.
اس بات کو برسوں بیت گئے , ان کے ہاں چار بیٹے پیدا ہوئے, اور پانچویں بار اللہ نے ان کو بیٹی دی . شوہر اپنی بیٹی کی پیدائش پر انتہائی خوش تھا اور اپنی ننھی گڑیا کے اس دنیا میں آنے کی خوشی میں ایک بہت بڑے پارٹی کا انتظام کیا اور اس پارٹی میں ہر اس شخص کو بلایا گیا جس کو وہ جانتا تھا اور خوب خوشیاں منائی گئیں.
جب پارٹی ختم ہوئی اور مہمان اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے تو رات کو بیوی نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اپ نے انتے بڑے پارٹی کا انتظام کیا اور اتنی زیادہ خوشیاں منائی جب کہ اس سے پہلےہمارے چار بیٹے بھی ہے جن کی پیدائش پر اپ نا تو اس قدر خوش ہوئے تھے اور نا کبھی اس طرح پارٹی کا انتظام کیا.
تو شوہر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ یہ وہ ہے جو میرے لیئے دروازہ کھولے گی