زندگی خاک نہ تھی خاک اڑاتے گزری
تجھ سے کیا کہتے تیرے پاس جو آتے گزری
دن جو گزرا تو کسی یاد کی رَو میں گزرا
شام آئی , تو کوئی خواب دکھاتے گزری
اچھے وقتوں کی تمنا میں رہی عمرِ رواں
وقت ایسا تھا کہ بس ناز اُٹھاتے گزری
زندگی نام اُدھر ہے, کسی سرشاری کا
اور اِدھر دُور سے ایک آس لگاتے گزری
بارہا چونک سی جاتی ہے مسافت دل کی
کس کی آواز تھی یہ کس کو بلاتے گزری
نصیر ترابی