اردو ڈراموں کے مشہور رائٹر خلیل الرحمن قمر صاحب لکھتے ہیں کہ میں جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا اور غربت کے باوجود کبھی بھی استعمال شدہ یا لنڈے کے کپڑے نہیں پہنتا تھا ایک بار میرے والد صاحب کو کپڑے کا ایک سوٹ گفٹ میں ملا تو میں نے اپنے والد صاحب سے کہا کہ میں نے اس سوٹ سے کوٹ سلوانا ہے تو ابا جی نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ سلوا لیا جس کا اُن دنوں بڑا رواج تھا۔۔
وہ کوٹ پہن کر میں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فَٹ سے پوچھا: ”اووے خیلے اے کوٹ کتھو لیا ای۔؟
میں نے کہا: ”جی نیا سلوایا ہے چاچی“ لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھائیں لیکن اُن کو اعتبار نہ آیا خالہ اور پھوپھو کے گھر گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا, میں گھر آیا اور کوٹ اُتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا. گھر کی حالات کچھ ایسے تھے کہ کوئی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے۔
پڑھنے لکھنے اور جاب کے بعد جب میں ایک بنک کے بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کا ممبر بنا تو بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے ڈراٸی کلین کیا ہوا لنڈے کا کوٹ پہن کر گیا تو میرے کولیگز کوٹ کو ہاتھ لگا کر پوچھنے لگے, ”خلیل صاحب بڑا پیارا کوٹ اے کیہڑا برانڈ اے تے کھتو لیا جے؟ کلاتھ تے سٹیچنگ وی کمال اے “
میں نے بِنا کوٸی شرم محسوس کرتے ہوٸے کہا: ”بھائی جان لنڈے چوں لیا اے“ لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھائیں پھر بھی اُن کو اعتبار نہ آیا۔۔ اور اب کی بار میں رونے کی بجائے ہسنے لگ گیا تھا۔
سچ یہ ہے کہ یہ معاشرہ بڑا منافق ہے غریب کے سچ پر بھی اعتبار نہیں کرتا اور امیر کے جھوٹ پر بھی صداقت کی مہر لگا دیتا ہے۔ یہاں لوگوں کی نہیں ان کی بینک بیلنس کی عزت ہوتی ہے.
Khalil ur rahman qamar