غزل محسن نقوی صاحب
مرحلے شوق کے دشوار ہوا کرتے ہیں
سائے بھی راہ کی دیوار ہوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گنہگار ہوا کرتے ہیں
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بہت خودار ہوا کرتے ہیں
وہ جو پتھر یونہی رستے میں پڑے رہتے ہیں
ان کے سینے میں بھی شاہکار ہوا کرتے ہیں
صبح کی پہلی کرن جن کو رلا دیتی ہے
وہ ستاروں کی عزادار ہوا کرتے ہیں
جن کی آنکھوں میں سدا پیاس کے صحرا چمکیں
در حقیقت وہی فنکار ہوا کرتے ہیں
شرم آتی ہے کہ دشمن کسے سمجھیں محسن
دشمنی کے بھی تو معیار ہوا کرتے ہیں
Marhalay Shoq Ke Dushwar Howa Kartay Hain
Tags: mohsin naqvi