ایک دن شاہ جہان بادشاہ شکار کیلئے نکلے تو ایک زخمی ہرن کا پیچھا کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے دور چل کر بچھڑ گئے. ہرن بھی ہاتھ نہ آیا اور راستہ بھی کھوں دیا. دوپہر کا وقت تھا ساتھیوں کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا. بادشاہ کو سخت پیاس لگی تھی . اتنے میں ان کی نظر بڑ کے ایک درخت پر پڑی جس کی ٹھنڈی چھاؤں کے نیچے ایک گڈریا اپنی بھیڑ بکریوں کے ساتھ بیٹھا تھا. بادشاہ نے جو اس وقت شکار کے کپڑوں میں تھے, گڈریے سے پانی مانگا تو اس نے بتایا کہ ساتھ لایا ہوا پانی ختم ہوگیا ہے. اس نے فورا ایک بکری کے دودھ سے برتن دھو کر دوسری بکری کا دودھ بادشاہ کو پینے کیلئے دیا. شاہ جہان کو گڈریے کی یہ بات بہت پسند آئی اور اس نے اس سے کاغذ مانگا. جنگل میں بھلا گڈریے کے پاس کاغذ کہاں – بادشاہ نے بڑ کا ایک پتا توڑ کر اس پر خنجر کی نوک سے کچھ لکھا اور اس گڈریے کو دیتے ہوئے بولا ” یہ لو اپنا انعام .ہم نے تمہیں دو گاوں جاگیر میں دیئے ہیں. جمعہ کو یہ پتا لیکر جامع مسجد دہلی آکر ہم سے مل لینا. ”
گڈریا خوش ہوکر گھر لوٹ چلا. اپنی کمبل زمیں پر ڈال کر وہ پتا اس پر رکھ دیا اور بکریاں بند کرنے لگا. ایک بکری جو ادھر سے آئی تو اس نے پتا منہ میں اٹھا لیا اور گڈریے کے پہنچنے سے پہلے چٹ کر گئی. اس کا اسے بڑا دکھ ہوا اور وہ یہ کہتا ہوا جنگل میں چلا گیا کہ ” بکری دو گاوں کھا گئی “.
آخر جمعہ کا دن آ پہنچا. گڈریا اپنے گاؤں سے نکل کر دہلی کی طرف چل پڑا. چلتے چلتے دوپہر ہوگئی. بکری دو گاوں کھا گئی کی رٹ لگاتے ہوئے وہ جامع مسجد میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ تمام نمازی ہاتھ اٹھائے دعا مانگ رہے ہیں. اس نے بادشاہ کو بھی دعا مانگتے دیکھا تو ایک دم چیخ پڑا کہ ” داتا چھپڑ پھاڑ کر دیگا تو لوں گا “. اور یہی کہتے ہوئے واپس بھاگ نکلا. بادشاہ نے نماز کے بعد اسے بہت تلاش کیا لیکن وہ نہ ملا.
جنگل میں پہنچتے پہنچتے گڈریے کو شام ہوگئ. وہ وہیں ایک بڑے پرانے درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا. رات کو کچھ ڈاکو وہاں آئے اور گاوں میں ڈاکہ ڈالنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے. گڈریے نے ان کی ساری باتیں سنی اور ان کو ٹوکا اور بولا, ” چوری کرنا بری بات ہے اور پھر وہ گاوں کے لوگ تو بہت عریب ہے ان کے پاس کچھ نہیں ہے . اگر تم لوگوں کو واقعی پیسہ ہی چاہیے تو اس درخت کے نیچے کھودو . میں نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ یہاں ایک بہت بڑا پرانا خزانہ دفن ہے “. یہ کہہ کر وہ گڈریا گاوں کی طرف , داتا چھپڑ پھاڑ کر دیگا تو لوں گا, کی رٹ لگاتا ہوا چلا گیا.
ڈاکوؤں نے بڑی بحث کی بعد کھدائی شروع کی اور وہاں سے سچ مچ دو بڑے برتن نکل آئے. ڈاکو بڑے خوش ہوئے مگر جیسے ان لوگوں نے برتن کھولے تو اس میں سانپ اور بچھو بھرے ہوئے تھے. ڈاکوؤں کو یہ دیکھ کر بڑا غصہ آیا اور وہ برتن لیکر گاوں کی طرف چل پڑے. ایک جھونپڑی سے گڈریے کی آواز آرہی تھی. انہوں نے وہ دونوں برتن اس گڈریے کی آنگن میں الٹ دئیے تاکہ سانپ اور بچھو اسے ڈس لیں . لیکں ان برتنوں سے اشرفیاں گرنے لگی اور اس کی شور سے گاوں کے لوگ جاگ گئے. ڈاکوؤں نے گاوں والوں کو جاگتے دیکھ کر وہاں سے بھاگنا غنیمت جانا .
گڈریے بھی اپنے جھونپڑی سے باہر آیا اور اپنے آنگن میں اشرفیاں دیکھ کر زور سے نعرہ لگایا, “داتا ! تو سچا ہے تو نے مجھے چھپڑ پھاڑ کر دیا”. اگلی صبح بادشاہ کے ملازم بھی گاوں پہنچ گئے اور اسے دربار میں لے گئے. گڈریے نے بادشاہ کو سارا واقعہ سنایا اور یہ بھی بتایا کہ میں نے کیوں اپ سے انعام لیے بغیر واپس بھاگنا اچھا سمجھا کیوں کہ اپ بھی مسجد میں بیٹھ کر اس اللہ سے مانگ رہے تھے جو سب کا اللہ ہے تو میں نے سوچا کہ میں بھی کیوں نا اسی اللہ سے مانگو جس سے وقت کے بادشاہ بھی مانگتے ہیں. اور اپ نے دیکھ لیا کہ اس نے مجھے میرا انعام دے دیا ہے. بادشاہ نے گڈریے کو عزت کے ساتھ اس کے گاوں بھیج دیا .